واضح رہے کہ گزشتہ بجٹ میں ایسے تمام بینکوں پر 15 فیصد جرمانہ عاید کرنے کا فیصلہ کیا تھا جو بینک کے پاس مجموعی ڈپازٹ کے نصف کو سرمایہ کاروں کو قرض کی فراہمی میں ناکام رہیں گے ۔ حکومت کی جانب سے یہ اقدام بینکوں کو قرض کی فراہمی کے لیے سرمایہ بطور قرض دینے پر مجبور کرنا تھا ۔ اس وقت بینک عمومی طور پر زیادہ شرح منافع کے حصول کے لیے عام سرمایہ کاروں کو قرض دینے سے گریز کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے پاس موجود ڈپازٹ کی رقم کو یا تو زرمبادلہ کا سٹہ کھیلتے ہیں یا پھر سرکاری تمسکات یا بانڈز خرید لیتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں غیرملکی کرنسی خصوصا امریکی ڈالر کی قیمت میں مصنوعی اضافہ ہورہا ہے اور دوسری جانب ملک میں صنعتوں اور دیگر کاروباری پروجیکٹس کے سرمایہ دستیاب نہیں ہے ۔ بینکوں کی یہ پالیسی ملک میں مہنگائی اور افراط زر کی شرح میں اضافے کے لیے دو دھاری تلوار کا کام کررہی ہے ۔
حکومتی اقدام کو ناکام بنانے کے لیے بینکوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک ارب روپے سے زاید ڈپازٹ کی رقم پر ماہانہ پانچ تا چھ کروڑ روپے کی کٹوتی کریں گے تاکہ ان کے پاس ڈپازٹ کی رقم کم ہوسکے اور وہ سرکاری جرمانے سے بچ سکیں ۔ اس سے بڑی کمپنیوں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی ۔
بینکوں کے دباؤ میں آ کر حکومت نے مجموعی ڈپازٹ کا کم از کم پچاس فیصد قرض فراہم کرنے کی شرط کو فی الحال مؤخر کرنے کا اعلان کیا ہے جس کے بعد سے بینکوں نے بھی کٹوتی کی شرط کو ختم کرنے کا اعلان شروع کردیا ہے
Leave a Comment