شام کے اہم ترین شہر حلب پر امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ التحریر الشام کےقبضے سے ایک نئی تصویر سامنے آئی ہے ۔ ایران کی حمایت یافتہ لبنانی حزب اللہ ہی شام کے سربراہ بشار الاسد کے لیے اہم ترین دفاعی لائن تھی ۔ روسی اور ایرانی اسلحہ سے مسلح حزب اللہ کے جنگجو ہی داعش اور القاعدہ کے سامنے دیوار بنے کھڑے تھے ۔
توقع کی جارہی ہے کہ جنوری میں ٹرمپ کے اقتدار سنبھالتے ہی روس اور یوکرین میں روس کی فتح کے ساتھ ہی جنگ بندی ہوجائے گی ۔ یعنی یوکرین کے جن علاقوں کا روس نے اپنے ملک کے ساتھ الحاق کرلیا ہے ، انہیں تسلیم کرلیا جائے گا ۔ اس طرح روس یوکرین سے فارغ ہوجائے گا ۔ ایک طرح سے امریکا اور اس کےاتحادی یورپ کے منہ پر زبردست روسی طمانچہ ہوگا جو انہیں بہت عرصے تک یاد رہے گا ۔
اس شکست کا بدلا لینے کے لیے امریکا نے اسرائیل کی مدد سے روسی حلیف شام کے حصے بخرے کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرنے کے ساتھ ہی اس کی منصوبہ بندی کرلی گئی تھی ۔ یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ جو بھی کرنا ہے دسمبر کے اندر ہی کرلینا ہے ۔ یعنی یوکرین کی جنگ بندی سے پہلے پہلے ۔
لبنان میں حزب اللہ کو زبردست نقصان پہنچانے کے بعد حملہ کرنے میں اتنا عرصہ محض اس لیے لگا کہ التحریر الشام کو تخلیق کرنا اور انہیں مسلح کرنا تھا ۔ اس کے لیے ناٹو اتحادی ترکی نے اہم ترین کردار ادا کیا ۔
حیرت انگیز طور پر جو قوتیں القدس کی فلسطین اور مغربی کنارے پر فلسطینیوں کی نسل کشی پر دم دم کشیدہ کی تصویر بنی ہوئی تھیں ، حلب پر حملے کے موقع پر سُورما بنے ہوئے تھے ۔ تکفیری اور شیعہ دونوں نعرے بلند ہورہے ہیں اور مفتوحین کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جس پر انسانیت شرما جائے ۔
حلب کے بعد حما اور ادلب پر لشکر کشی جاری ہے ۔ ہر طرف بارود اور خون کی بُو ہے ۔ حلب کی اسموک اسکرین میں غزہ میں جاری اسرائیلی فلسطینیوں کی نسل کشی چھپا دی گئی ہے