تحریر۔۔۔۔حمزہ قریشی
فلسطینی کاز کے معنی ہر ایک کیلئے مختلف ہیں ۔۔ایران۔۔ترکی۔۔سعودی عرب و دیگر عربوں کا الگ ہے۔۔کچھ مشترکات ہوں گے مگر وہ بھی جزباتی مذہبی حد تک ہے۔۔ماڈرن ریاست تو خیر سے ساری اپنی اصل میں سیکولر ہی ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ایران اور ترکی کو اسرائیل سے براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہے۔
عربوں کو ہے۔ عربوں میں بھی تین فکر ہیں۔ ایک بعثی نیشنلسٹ سوچ۔۔ایک بادشاہت والی سوچ اور آخری اخوانی فکر۔۔
اس وقت شام میں اخوانی و سلفی (اس سلفیت کا عرب بادشاہت سے تعلق نہیں) سوچ کام کررہی ہے۔ وہ جنگ لڑ رہے ہیں بعثی فکر سے جس کو ایران روس کی حمایت حاصل ہے۔
فلسطین میں نیشنلسٹ اور اخوانی ہیں۔ مخالف یہودی ہیں۔ نیشنلسٹ اور اخوانیوں کے اپنے اختلافات ہیں۔
ایران کی فلسطینی مزاحمت کی مدد کے اعلانات زیادہ ہیں۔۔۔کام کم ہے۔۔ اور اس کا بڑا مقصد عرب بادشاہت کو کاونٹر کرنا ہے۔ ایرانی فکر کی بنیاد شیعہ و فارسی عصبیت پر ہے۔
پھر ایک سابق کیمونسٹ سوچ بھی ہے خطے میں، جو معاملات کو محض امریکی و روسی جنگ کے تناظر میں دیکھتی ہے۔ اس کا خیال ہے صرف یہ دو بڑے پلیئرز ہیں باقی تو سب بے وقوف ہیں۔
میرا خیال ہے کہ چونکہ اخوانی فکر کو کہیں بھی مکمل حکومت (ترکی اور قطر میں جزوی ہے) حاصل نہیں ہے..اس لیے وہ اپنے حاملین کی اس طرح مدد نہیں کر پا رہے۔ نہایت سوچ و بچار کے باوجود بھی لیے جانے والے فیصلے (خصوصا جنگی فیصلہ) کے بارے میں تو لگتا یہی ہے کہ جلدبازی اور جزباتیت کا نتیجہ ہیں۔ البتہ ایسے فیصلے لیتے رہنا چاہیے تاکہ آپ کی فکر بالکل ہی غیر متعلق نہ ہوجائے۔ پچھلے 50 سالوں میں اخوانی فکر کے قدم آگے ہی بڑھیں ہیں۔
الجزیرہ کے معروف صحافی مختار شنقیطی کا وہب سائٹ پر شائع ایک کالم ہے پچھلے سال جولائی کا۔۔۔اس میں انہوں نے ترکی کو صلاح دی تھی کہ ابھی وقت ہے حلب پر قبضہ کرلو۔ روس یوکرین میں مصروف ہے۔۔اب وہ اس طرح شامی سرکار کی مدد کے لیے نہیں آئے گا ۔ ترکی کے اوپر مہاجرین کا دباؤ بھی کم ہوگا اور دوسرا ترکی کی معیشت کو بھی فائدہ ہوگا۔۔
ایک میرا یہ بھی خیال ہے کہ ترکی سے شامی مہاجرین کے واپس جانے سے اردوغان کو بھی انتخابات میں فایدہ ہوگا۔۔۔