بی بی سی کی رپورٹ سے یہ بات تو ثابت ہو گئی ہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ نہ تو اسرائیل اور اُس کے اتحادیوں کے لیے اچانک تھا اور نہ ہی حماس اور اُس کے اتحادیوں کے لیے ۔ حماس اور اُس کے اتحادی اس لیے باخبر تھے کہ وہ گزشتہ ایک برس سے اس کی مشقیں کررہے تھے اور جنگ کے لیے مطلوبہ ساز و سامان بھی جمع کررہے تھے ۔ اسرائیل اور اُس کے اتحادی اس لیے باخبر تھے کہ اُن کے جاسوس خبر بھی دے رہے تھے اور وہ یہ سب کچھ ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ رہے تھے ۔ یہ سب جاننے کے بعد کہ حملہ اچانک نہیں تھا ، کئی سوالات حماس اور اسرائیل کے حوالے سے ذہن میں جنم لیتے ہیں ۔
پہلا سوال تو یہی ہے کہ جب حماس نے یا اس کے سرپرستوں نے اسرائیل پر حملے کا منصوبہ بنایا تھا ، تو اُن کے ذہن میں کیا منصوبہ تھا ۔ کیا اُنہیں اس کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا ۔ اگر اندازہ تھا تو انہوں نے اس کے لیے کیا منصوبہ بندی کی تھی ۔ اور اگر کوئی منصوبہ بندی نہیں کی تھی تو کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ کسی طاقت نے انہیں یقین دلایا تھا کہ اسرائیل کا ردعمل محدود ہوگا اور جنگ بندی دنوں میں نہیں تو ہفتوں میں ہوجائے گی ۔ سب جانتے ہیں کہ امریکا اور یورپ کے وسائل کو اسرائیل شِیر مادر سمجھ کر استعمال کرتا ہے اور یوں اس کے پاس وسائل و رسد کی کوئی کمی نہیں ہے تو پھر اس کے جواب میں حماس کے پاس رسد کی مسلسل اور بلاتعطل فراہمی کا منصوبہ کیا تھا ۔ اسرائیل کی فضائی قوت کے بارے میں حماس بھی اور اس کے موجودہ سرپرست ایران بھی بخوبی جانتے تھے تو پھر اُس کے توڑ کا تدارک کیوں نہیں کیا گیا ۔
یہ اور اِن جیسے ان گنت سوالات ہیں ، جن کے جوابات جانے بغیر ہم غزہ میں شروع کیے گئے گریٹ گیم کو نہیں سمجھ سکتے ۔ پہلے ہم حماس کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کے بعد اسرائیل کے حوالے سے ذہن میں آنے والے سوالات کا جواب ڈھونڈیں گے ۔ اِسی کے بعد ہم حالات کی واضح تصویر دیکھ پائیں گے ۔
آگے تجزیہ کرنے سے قبل ایک مرتبہ پھر سے یہ سمجھ لیں کہ دنیا پر حکومت نہ تو امریکا کررہا ہے اور نہ ہی روس و چین وغیرہ ۔ یہ سب بھی دیگر ممالک کی طرح شطرنج کی بساط کے مہروں کی مانند ہیں ۔ دیگر ممالک میں اور اِن میں بس وہی فرق ہے جو وزیر اور پیادے میں ہوتا ہے ۔ وزیر کو بساط کے ہر گھر میں ہر طرح سے حملہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے اور پیادے کو بالکل بھی نہیں جبکہ دیگر مُہروں گھوڑے، ہاتھی اور اونٹ کو درمیانے درجے کے اختیارات ہوتے ہیں ۔ مگر ہوتے سارے مہرے ہی ہیں اور بساط لپٹنے کے بعد سب ایک ہی صندوقچی میں بند کر دیے جاتے ہیں ۔ بساط پر چالیں چلنے والی قوتیں بالکل ہی مختلف ہیں جن کا کہیں پر کوئی تذکرہ نہیں ہوتا ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے یہ قوتیں بساط کے دونوں جانب سے خود ہی چالیں چل رہی ہوتی ہیں ۔ یہ قوتیں کون ہیں ، اس بارے میں تفصیل سے میں اپنی کتاب جنگوں کے سوداگر میں بھی بات کر چکا ہوں اور کئی آرٹیکلز میں بھی اس پر گفتگو کی جاچکی ہے جو میری ویب سائٹ پر ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں ۔
اب ہم حماس کے حوالے سے اُٹھنے والے سوالات کو دیکھتے ہیں ۔ ایک بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ حملہ کبھی بھی اچانک نہیں ہوتا ۔ اس کے لیے طویل تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ تیاریاں ہر طرح کی ہوتی ہیں ، سامان رسد کی بھی جس میں غذا سے لے کر گاڑیوں کے فاضل پرزہ جات ، پٹرول کے ذخائر اور وردیاں تک شامل ہیں ، اسلحہ و دیگر ساز و سامان کی بھی ۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اسلحہ کتنے دنوں کا ہے اور اُس کی بلاتعطل فراہمی کا کیا ذریعہ ہوگا ۔ اور اگر جنگ طویل ہوگئی تو اسے ؛لپیٹنے کا کیا طریقہ کار ہوگا ۔
حماس کے 7 اکتوبر 2023 کو کیے جانے والے حملے کے حوالے سے ہمیں نظر آتا ہے کہ اس طرح کی کوئی منصوبہ بندی موجود نہیں تھی ۔ حماس کے جنگجوؤں کے پاس ہلکے امریکی ہتھیار تھے اور بس ۔ میدان جنگ میں موجود حملہ آور جنگجوؤں کے پاس ایک ہی منصوبہ تھا کہ اسرائیل کی غزہ کے گرد کھینچی گئی فصیل کو کس طرح توڑنا ہے اور کس طرح سے اسرائیل کے اندر گھس کر چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے اہداف کو مکمل کرکے اسرائیل کے سنبھلنے سے پہلے غزہ میں واپس پہنچ جانا ہے ۔ اس منصوبہ بندی میں اسرائیلی علاقوں کو کنٹرول میں رکھنے کا کوئی آپشن نہیں تھا ۔ اگر یہی منصوبہ بندی تھی تو حماس نے کامیاب آپریشن کیا تھا ۔ مگر اسرائیل کا ردعمل کیا ہوگا ، اس بارے میں ہمیں کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ۔
اگر حماس یا اس کے سرپرست ایران کا یہ خیال تھا کہ اسرائیل زمینی کارروائی کرے گا تو اِسے نادانی ہی کہا جا سکتا ہے ۔ اسرائیل کے سرپرست امریکا کا افغانستان میں حملوں کا جائزہ لیں تو وہ یہی ہے کہ انہوں نے پہلے اپنے اہداف پر اندھا دھند بمباری کی حتٰی کہ نیوکلیئر بمباری بھی کی اور مشتبہ علاقوں کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ جب انہیں یقین ہوگیا کہ دشمن کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مزاحمت کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے تو پھر ان کی زمینی فوجیں علاقے کا کنٹرول سنبھالنے کے لیے افغانستان میں داخل ہوئیں ۔ اِ س کے لیے بھی امریکی فوجوں نے اپنے اتحادیوں پاکستان ، ازبکستان ، تاجکستان اور ترکی سے مدد لی ۔ بالکل یہی طریقہ کار اسرائیل نے بھی غزہ میں اختیار کیا ۔ ان فضائی حملوں کا حماس کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان حملوں کا منصوبہ بندی میں کہیں تذکرہ ہی نہیں تھا اور وہ بہ آسانی بلا کسی مزاحمت کے اسرائیلی ڈرونز کا آسان شکار بنتے رہے ۔
خود حماس کے پاس اسرائیل پر فضائی حملوں کا کوئی آپشن نہیں تھا ۔ ان کے پاس جو میزائیل تھے ، انہیں بچو ں کا پٹاخہ تو کہا جاسکتا ہے مگر ایسا میزائیل نہیں جس سے اسرائیل کوکوئی تشویش ہوتی ۔ یوں اسرائیل ایک ننھا سا ملک ہونے کے باوجود ہر طرح سے مامون رہا ۔
بمباری کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کردی اور پینےکے پانی سے لے کر کھانے کی ہر چیز کے غزہ میں داخلے پر نہ صرف پابندی عاید کردی بلکہ اس پر عمل بھی کیا ۔ اگر اقوام متحدہ کےکسی امدادی قافلے کو غزہ میں داخلے کی اجازت دی بھی تو اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں یہودیوں نے اسے راستے میں ہی لوٹ لیا ۔ اس طرح سے جدید دور میں بھی فلسطینی بھوک اور پیاس کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ حماس کے پاس ضروری ادویات کا بھی کوئی ذخیرہ موجود نہیں تھا اور نہ ہی اسرائیل کو عملی طور پر یہ بتانے کا کہ اگر ان کے اسپتال محفوظ نہیں رہیں گے تو اسرائیل کے بھی اسپتال محفوظ نہیں ہوں گے ۔ وہ تو اسرائیل کے ائرپورٹ تک بند نہیں کرسکے ۔
کیا یہ سب نادانی تھی ۔ نہیں ہم اسے نادانی نہیں کہہ سکتے کہ آج کے دور میں وڈیو گیم کھیلنے والے بچے بھی کھیل میں یہ ساری منصوبہ بندی کرلیتے ہیں ۔ تو پھر یہ سب کیا تھا ؟
اس سوال پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com