ایک بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ کسی بھی ملک سے کوئی گروہ اس وقت تک نہیں لڑ سکتا جب تک اسے کسی دوسرے ملک کی حمایت حاصل نہ ہو اور کوئی دوسرا ملک اُس وقت تک کسی گروہ کی حمایت نہیں کرتا ، جب تک اس کا اپنا مفاد نہ ہو ۔ یہ صورتحال ہم ویتنام ، بنگلا دیش سے لے کر افغانستان تک دیکھ سکتے ہیں ۔ حماس کو بھی اسرائیل پر حملے کے لیے کسی ملک کی مالی و دیگر حمایت کی ضرورت تھی ۔ پہلےسعودی عرب حماس کا سرپرست تھا ، اس کے بعد حماس کا سرپرستی قطر کے پاس آئی ، بعد ازاں اس نے حماس کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچ لیا ، جس کے بعد حماس ایران کی سرپرستی میں چلی گئی ۔ اس پورے عمل کو ہم change of hands بھی کہہ سکتے ہیں ۔ یوں حماس کے جو بھی معاملات تھے ، اُس میں ایران کی ہدایات شامل تھیں ۔ ہم طوفان الاقصیٰ کو ایران کا brainchild بھی کہہ سکتے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023 سے لے کر اب تک کے حالات و واقعات کا تجزیہ کریں ۔ غزہ میں فلسطینیوں کی مکمل نسل کُشی ، پورے غزہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا گیا ، شمالی غزہ پر اسرائیل کا باقاعدہ قبضہ ، جنوبی غزہ پر بھی اسرائیلی عملداری ، مغربی کنارے پر بھی اسرائیلی آبادگاروں کا مزید جارحانہ رویہ ، مغربی کنارے میں آباد فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے بے دخل کرکے یہودیوں کا اُن گھروں پر مسلسل قبضہ وغیرہ وغیرہ ۔ حماس اور حزب اللہ کی پوری قیادت کی صفائی ۔ لبنان کی سرزمین پر بھی اسرائیلی فوجیں داخل اور ان کی عملداری وغیرہ وغیرہ ۔ یہ نقصان تو صرف اہل فلسطین کا ہوا ۔ شام اور دیگر ممالک کا ذکر بعد میں ۔
حاصل کیا ہوا ۔ نیتن یاہو پر عالمی عدالت میں مقدمہ وہ بھی جنوبی افریقہ اور لاطینی امریکی ممالک نے کیا اور بس ۔ جنگ کی صورتحال پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں ۔ اسرائیل پوری دنیا کی جدید ترین حربی ٹیکنالوجی سے مسلح تھا ۔ اس کا اندازہ pager attack سے لے کر ڈرون حملوں تک سے لگایا جاسکتا ہے ۔ اس کے جواب میں حماس کے پاس کیا تھا؟ ان کے پاس جدید ٹیکنالوجی تو کیا پرانی ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی ۔ ایران کے ڈرون مشہور ہیں ، روس بھی اس سے استفادہ کررہا ہے مگر یہ ڈرون نہ تو حزب اللہ کے پاس موجود تھے اور نہ ہی حماس کے پاس ۔ ان کے پاس تو ڈرون کو تباہ کرنے کی بھی صلاحیت موجود نہیں تھی اور وہ پولٹری فارم کی مرغیوں کی طرح بے بسی سے موت کا شکار ہوتے رہے اور ہورہے ہیں ۔
یہاں پر نئے سوال پیدا ہوتے ہیں کہ ایران نے آخر ایسی احمقانہ منصوبہ بندی کیوں کی اور اسرائیل کو جب معلوم تھا کہ حماس اس پر حملہ آور ہورہا ہے تو پھر اس نے اسے پہلے سے ہی کیوں نہیں روک دیا ۔
یہ دونوں سوال الگ نہیں ہیں ۔ ہمیں معاملات اس لیے پیچیدہ معلوم ہورہے ہیں کہ معاملات کو اُس زاویے سے دیکھ رہے ہیں جو ہمیں سمجھا دیا گیا ہے ۔ یہ ایک ایسا theatre play ہے جس میں ہیرو، سائیڈ ہیرو ، ولن ، وغیرہ وغیرہ ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے ہیں ۔ حقیقت میں یہ سب ایک ڈائریکٹر کی ہدایات کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں ۔ جتنا ڈائریکٹر اجازت دیتا ہے ، اُتنا ہی سارے کردار عمل کرتےہیں ۔
طوفان الاقصیٰ میں کس کا کیا کردار ہے ۔ اس کا ہمیں پہلے حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے استعمال سے پتا چل سکتا ہے ۔ حملے کے فوری بعد اکتوبر 2023 کو میں نے "طوفان الاقصیٰ ” کے عنوان سے ایک سیریز سپرد قلم کی تھی ۔ آرٹیکلز کی یہ سیریز میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔ اس کی تیسری قسط میں لکھا تھا کہ ” القسام بریگیڈ کے جنگجوؤں نے طوفان الاقصیٰ میں امریکی M4 assault رائفلیں استعمال کیں ۔ ملین ڈالر سوال یہ تھا کہ آخر حماس کے پاس یہ امریکی ہتھیار پہنچے کیسے ۔ اس حوالےسے دو ہی آپشن ہیں کہ یہ یا تو افغانستان سے حماس تک پہنچے یا پھر یہ یوکرین سے جہاں پر امریکا نے روس سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کیے ہیں۔ پہلا شک افغانستان پر ہی کیا گیا کہ طالبان نے یہ حماس کو فراہم کیے ہوں گے تاہم یہ سوال خود ہی اس لیے ختم ہوگیا کہ افغانستان میں امریکی ہتھیار بھاری تعداد میں طالبان کے پاس موجود ہی نہیں ہیں ۔ امریکا افغانستان میں کوئی بھی کارآمد چیز چھوڑ کر نہیں گیا ، وہ تو اپنا اسکریپ بھی اٹھا کر لے گیا ہے ۔ افغانستان میں جو بھی امریکی ہتھیار موجود ہیں ، وہ ہتھیار وہ ہیں جو امریکا نے افغانستان میں داعش جیسے اپنے پٹھوؤں کے پاس چھوڑے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے داعش جیسے گروپوں کو یہ ہتھیار کسی خاص مقصد کے لیے فراہم کیے گئے ہیں نہ کہ ان سے لے کر آگے فراہم کردیے جائیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ان کا ایمونیشن بھی اتنا ہی اہم ہے اور فی الوقت یہ افغانستان میں اتنی وافر مقدار میں موجود نہیں ہے ۔
اب دوسرا آپشن یوکرین بچتا ہے جہاں سے یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کو فراہم کیے گئے ۔ امریکا میں ریپبلکن رکن کانگریس Marjorie Taylor Greene نے یہی سوال اٹھایا ہے ۔ گرینی کا کہنا ہے کہ القسام بریگیڈ کے پاس موجود ہتھیاروں کے سیریل نمبر لے کر تحقیقات کی جائیں کہ یہ ہتھیار القسام بریگیڈ کے پاس کہاں سے پہنچے ۔ اس سوال پر پورے امریکا میں چپ لگ گئی ہے اور کسی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے ۔ نیوز ویک نے اپنے تازہ شمارے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے شواہد نہیں ہیں مگر اس کے پاس اطلاعات ہیں کہ طوفان الاقصیٰ میں حصہ لینے والے افراد کی تربیت بھی یوکرین میں ہی ہوئی ہے ۔
"
اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس کے حملے کے پروگرام میں اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکا بھی شامل تھا ۔ اپنے اسی آرٹیکل میں ، میں نے لکھا تھا کہ ” یہاں سے دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے کہ یوکرین کی موجودہ قیادت مکمل طور پر اسرائیل نواز ہے ۔ یوکرین کا صدر ولادمیر زیلنسکی نہ صرف یہودی ہے بلکہ کئی مرتبہ اسرائیل کے ساتھ اپنی وفاداری کا علی الاعلان اظہار بھی کرچکا ہے تو پھر یوکرین سے امریکی ہتھیار کیوں القسام بریگیڈ کو پہنچے اور کیوں کر ان کی تربیت یوکرین میں ممکن ہوئی ۔ ایسے معاملات عام آدمی کے لیے اس لیے سمجھنا مشکل ہوجاتے ہیں کہ اس کے نزدیک دوستی اور دشمنی کا مطلب وہی ہے جو ہونا چاہیے ۔ مگر یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جس طرح سیاست میں دوستی اور دشمنی کبھی بھی حتمی نہیں ہوتی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دوست دشمن میں اور دشمن دوست میں تبدیل ہوتے رہتے ہیں بالکل اسی طرح عالمی بساط پر دوستی اور دشمنی کا کہیں سے یہ مطلب نہیں ہے کہ ایسا ہی ہوگا ۔ ایک محاذ پر حلیف طاقتیں دوسرے محاذ پر حریف بھی نظر آئیں گی ۔ یہ ایک complex situation یا یوں کہیں کہ پیچیدہ صورتحال ہے ۔ اسے ہم مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں ۔
امریکا اور ترکی ناٹو کے اہم رکن ممالک ہیں ۔عراق پر امریکی حملوں میں ترکی کے کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ۔ مگر یہی امریکا آزاد کردستان کے معاملے پر روز ترکی کے کان مروڑتا ہے ۔ ترکی اور امریکا مل کر شام میں اسد حکومت کے خلاف ہر طرح کی فوجی و مالی مدد فراہم کررہے ہیں ۔ شام میں ترکی کا وہی کردار ہے جو افغانستان میں پاکستان کا تھا مگر یہی امریکا ترک حکومت کے تمام تر غم و غصے اور احتجاج کے باوجود شام میں کرد باغیوں کی بھرپور مدد کررہا ہے ۔ امریکا اور ترکی و عرب ممالک کے خلاف روس بشار الاسد حکومت کی پشت پر ہے اور ترک شہریوں کو شام کی سرحد پر روز نشانہ بناتا ہے ۔ مگر اسی روس کا تیل دنیا بھر میں سپلائی کرنے کے لیے ترکی نے اپنی بندرگاہ تک زمینی پائپ لائن کی سہولت مہیا کی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ بھی دونوں ممالک کے تجارتی تعلقات روز افزوں ہیں ۔ ترکی نے روس سے میزائل شکن دفاعی نظام بھی خریدا ہے ۔ امریکا داعش کے خلاف روز ایک نئی مہم شروع کرتا ہے ۔ داعش کے نام پر ہر طرح کی طالع آزمائی کرتا ہے مگر اس کا قریب ترین حلیف اسرائیل اسی داعش کو ہر طرح کی زمینی و فوجی سہولت فراہم کرتا ہے ۔ اسی امریکا کی ایجنسی سی آئی اے پر داعش کی پیدائش و حمایت کا الزام ہے ۔ یہ منافقت کا مختصر ترین احوال ہے ۔”
اب صورتحال کچھ کچھ واضح ہونی شروع ہوئی ہے کہ اس Theatre play میں کتنے کردار ہیں ۔ ان کرداروں کے اسکرپٹ پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com