اسرائیلی اخبار ہیرٹز نے غزہ میں اسرائیلی فوجیوں، خاص طور پر غزہ کی پٹی میں تعینات ڈیفنس فورس کے 252 ڈویژن کے فوجی افسروں کا نیٹزارم چیک پوسٹ پر جنگی جرم کا اعتراف شائع کیا ہے۔
صہیونی افسران نے نیٹزارم کے علاقے کو فلسطینیوں کی قتل گاہ قرار دیا اور انکشاف کیا ہے کہ بچہ ہو یا بڑا جو بھی اس علاقے میں داخل ہوتا ہے اسے گولی مار دی جاتی ہے۔
سات کلومیٹر مشرق مغربی نیٹزارم راہداری اسرائیلی سرحد سے بحیرہ روم تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس سے آئی ڈی ایف غزہ کے شمال اور جنوب کے درمیان نقل و حرکت کو کنٹرول کرتا ہے۔
صہیونی فوجی افسران نے مزید بتایا کہ نیٹزارم سے ملحقہ ایک خیالی لکیر ہے جسے "لاشوں کی لکیر” کہا جاتا ہے اور اس سے غزہ کی پٹی کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک اور افسر نے ہولناک انکشاف کیا کہ نیٹزارم کی حدود میں مارے جانے والے فلسطینیوں کی لاشوں کو آوارہ کتوں کے کھانے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، لاشوں کی تصاویر بنائی جاتی ہیں اور آرمی کمانڈ کو بھیجی جاتی ہیں۔
صہیونی افسر نے بتایا کہ جن 200 افراد کو شہید کیا گیا اورانکی لاشوں کی تصاویر لی گئی ہیں ان میں سے صرف 10 کا تعلق حماس کے ارکان سے ہے۔
آئی ڈی ایف افسر نے مزید انکشاف کیا کہ جو کوئی بھی متنازع راہداری میں خیالی لکیر کو عبور کرتا ہے اسے گولی مار کر ہلاک کر دیا جاتا ہے، ہر فلطسطینی کو دہشتگرد شمار کیا جاتا ہے، چاہے وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو۔
ایک ریزرو افسر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ جو بھی سرحد پار کرتا ہے اسے فوری طور پر سر میں گولی مارنے کے احکامات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ غزہ میں دہشت گردی کے ایک بڑے حصے کے ذمہ دار فوجی اہکار اور کمانڈر ہیں۔
اسرائیلی افسران اور فوجیوں نے انکشاف کیا کہ غزہ میں سب سے زیادہ تعداد میں فلسطینیوں کو مارنے کے لیے فوجی یونٹوں کے درمیان مقابلے اور چیلنجز ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوجی قانون کے بغیر ایک آزاد مسلح ملیشیا کی طرح کام کرتے ہیں۔