طوفان الاقصیٰ میں برسرپیکار حماس کے پاس نہ تو دستیاب حربی وسائل تھے اور نہ ہی بیرونی دنیا سے انہیں اُس طرح سے مدد پہنچی جو پہنچنی چاہیے تھی ۔ حزب اللہ اُس وقت میدان جنگ میں داخل کی گئی جب اسرائیل حماس سے مکمل طور پر فارغ ہو چکا تھا ، اس طرح اسرائیل کو ایک وقت میں ایک ہی دشمن سے نمٹنے کی عیاشی فراہم کی گئی ۔ نہ تو حوثیوں نے بحیرہ احمر کو بند کیا ، بس چند جہازوں پر علامتی حملے کیے گئے اور نہ ہی ایران نے آبنائے ہر مز کی ناکہ بندی کی ۔
غزہ میں بھی جاری جنگ کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ حماس کے پاس جو بھی اسلحہ موجود ہے ، اس کے ایمونیشن کی فراہمی میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ ایک ایسی جگہ پر جہاں پر غذا کا دانہ اُڑ کر بھی نہیں پہنچ سکتا اور وہ مکمل طور پر اسرائیل کی دست بُرد میں ہے ، وہاں پر ایمونیشن کی بلاتعطل فراہمی بجائے خود ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ۔
فلسطینیوں کے جانی نقصان کا جائزہ لیں تو اس میں خواتین، بچوں ، بزرگوں اور اسپتال میں داخل مریضوں کی اکثریت نظر آئے گی ۔ اس میں جنگجوؤں کی تعداد نسبتا کم ہے ۔ اصولی طور پر تو اسرائیل کو سب سے پہلے مدافعتی قوت کو نشانہ بنانا چاہیے تھا۔ مگر سب سے کم وہی نشانہ بنے ہیں ۔ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔
اب سارے نقاط کو جوڑ کر بننے والی تصویر کو دیکھتے ہیں ۔ پہلا نقطہ یہ ہے کہ حماس کا اسرائیل پر حملہ اچانک نہیں تھا ۔ وہ اس کی تیاری سال سے زاید عرصے سے کررہے تھے اور یوں اس کی منصوبہ بندی اس سے بھی قبل ہوئی تھی ۔ یہ منصوبہ بندی اور تیاری خفیہ نہیں تھی ۔ایک طرف حماس کے کارکنان سے لے کر اس کے رہنما تک اس سے واقف تھے ۔ حماس کے مربی بھی اس سے واقف تھے کہ یہ منصوبہ بندی کی ہی انہوں نے تھی۔ دوسری طرف اسرائیل کے اندر بھی ہر متعلقہ فرد اس منصوبے سے واقف تھا حتیٰ کہ میڈیا میں بھی اس کا تذکرہ آیا تھا ۔ یوں صرف اسرائیل ہی نہیں ، اس کے مربی یورپ و امریکا بھی اس پورے کھیل سے واقف تھے ۔ جب یہ حملہ ایک کھلا راز تھا تو یقینا اس سے روس و چین بھی بخوبی واقف تھے ۔
منصوبہ بندی کے تحت حماس کو صرف اتنے ہی ہلکے ہتھیار فراہم کیے گئے جو حملے کے لیے ضروری تھے ۔ اسے دفاعی اسلحہ فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی غزا میں غذائی اشیاء اور ضروری ادویہ کا ذخیرہ کیا گیا ۔ گمان غالب ہے کہ امریکا و دیگر دوستوں نے جلد جنگ بندی کی جھوٹی یقین دہانی کروائی تھی ۔ حزب اللہ کو تاخیر سے میدان جنگ میں اتارا گیا جس کا بھرپور فایدہ اسرائیل کو پہنچا ۔
حماس یقینا اس پورے کھیل میں ٹریپ ہوئی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ دیگر کھلاڑیوں کے اس میں کیا مفادات تھے ۔ یہ مفادات ہمیں غزہ پارٹ 2 کو دیکھے بغیر سمجھ میں نہیں آئیں گے ۔ غزہ پارٹ 2 کا کھیل ملک شام میں کھیلا گیا ۔ دیکھنے میں شام میں ہونے والے واقعات بھی اچانک ہی رونما ہوئے ہیں ۔ ہیئۃ تحریر الشام یا تنظیم برائے آزادی شام جسے مختصرا تحریر الشام کہتے ہیں کا قیام گو کہ 28 جنوری 2017 کو عمل میں آیا تھا ۔ یہ ایک اتحاد تھا جسے جیش الاحرار (سابقہ النصرۃ فرنٹ : احرار الشام کا ایک دھڑا ) ، جبہۃ فتح الشام ، جبہۃ انصارالدین ، جیش السنۃ ، لواء الحق اور نورالدین زنگی تحریک کو جوڑ کو عمل میں لایا گیا تھا ۔ تحریر الشام سے بعد میں نورالدین زنگی تحریک اور جبہۃ الانصار الگ ہوگئے ۔
تحریر الشام کے قیام کے بعد سے ہی اس کا دیگر تنظیموں سے قتال کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ جواب میں تحریر الشام نے القاعدہ کے وفاداروں کا کریک ڈاؤن شروع کیا اور اس نے ادلب میں ترکی کی مدد سے اپنی حکومت قائم کرلی ۔ آستانہ مذاکرات (یہاں پر قازقستان کے دارالحکومت آستانہ کا ذکر انتہائی اہم ہے ۔ یہ ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا مجوزہ دارالحکومت ہے ۔ اور پوری دنیا کے متعلق فیصلے یہیں پر کیے جاتے ہیں ۔ اس بارے میں ایک تفصیلی آرٹیکل میں سپرد قلم کرچکا ہوں جو میری ویب سائیٹ پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ۔ ) کے تحت 2017 میں جو جنگ بندی کی گئی تھی ، کے تحت تحریر الشام نے ترک فوجوں کو شمال مغربی شام میں گشت کرنے کی اجازت دی تھی ۔ گزشتہ سات برسوں سے تحریر الشام کی کوئی قابل ذکر کارکردگی نہیں تھی مگر دسمبر میں دیکھتے ہی دیکھتے ہی تحریر الشام نے پورے شام پر قبضہ کرلیا۔ صدام کے سقوط بغداد ، طالبان کے سقوط کابل اور بشارالاسد کے سقوط دمشق میں حیرت انگیز طور پر ایک قدر مشترک ہے ۔ وہ یہ ہے کہ دفاعی افواج کے کمانڈر نے زبردست مزاحمت دینے کے بجائے طشتری میں رکھ کر انہیں حملہ آور فوج کے اس طرح حوالے کیا کہ انہیں قبضہ کرنے کے لیے ایک گولی بھی نہیں چلانی پڑی ۔
دمشق پر حملہ آور تحریر الشام کے جنگجوؤں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ ان کے پاس سیکڑوں نئی گاڑیوں کا فلیٹ تھا، حملہ آور سپاہی بوسیدہ لباس کے بجائے نئی وردیوں میں تھے ، ان کے پاس ایمونیشن اتنا تھا کہ ان میں سے ہر فرد نے سیکڑوں راؤنڈز تو ایسے ہی فضا میں فائر کرڈالے ۔ یعنی ان کے پاس ایمونیشن کی کوئی کمی نہیں تھی ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب بھی باقاعدہ پہلے سے کی گئی ایک منصوبہ بندی کے تحت تھا ۔ ہم اگر یہی پتا چلا لیں کہ نئی گاڑیاں تحریر الشام کے لیے امپورٹ کرنے کا آرڈر کب دیا گیا تھا تو پتا چل جائے گا کہ یہ سب اچانک نہیں تھا ۔
باقی معاملات اس سے بھی سمجھے جاسکتے ہیں کہ طالبان کی طرح تحریر الشام بھی اب رواداری کے ایک نئے لبادے میں ملبوس ہے ۔ جس طرح سے طالبان کا رویہ افغانستان میں اپنے پہلے دور حکومت سے یکسر مختلف ہے بالکل اسی طرح تحریر الشام جہاں القاعدہ اور دیگر گروپوں کے جنگجوؤں کے خون کی پیاسی تھی ، اب ان کے لیے بھائی چارے کے پھول لیے کھٖڑی ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کھیل کے ڈائریکٹر کی ہدایت یہی ہے ۔
شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد اس کے آفٹر شاک بھی آنے ہیں ۔ اس سے سب سے پہلا متاثر ملک تو اردن ہی ہے جہاں کی بادشاہت کو اب ایک مرتبہ پھر سے خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔ لامحالہ سعودی عرب ، عراق اور مصر میں بھی اس کے اثرات پہنچیں گے ۔
اب تصویر زیادہ واضح ہوگئی ہے ۔ ہم کھیل میں شامل کرداروں کے مفادات کو زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں ۔ اسرائیل سب سے زیادہ فائدے میں رہا ۔ شمالی غزہ اسرائیلی عملداری میں آگیا اور جنوبی غزہ اس کی براہ راست نگہبانی میں ۔ لبنان میں بھی اس کا عمل دخل بڑھ گیا اور نام نہاد لبنانی فوج پیچھے ہٹ گئی ۔ گولان کے پورے علاقے پر اس کا قبضہ ہوگیا ۔ غرب اردن میں فلسطینیوں کی رہی سہی آبادی کو بھی ختم کرنے کا عمل شروع کردیا گیا ۔ حماس اور حزب اللہ کا کانٹا فی الحال نکل گیا ۔ اب ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور بیت المقدس کے انہدام میں اسے علاقائی طور پر کسی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔
ترکی کے لیے شام کا کانٹا صاف ہوگیا ۔ اب شامی مہاجرین واپس چلے جائیں گے اور یوں ترکی پر سے معاشی دباؤ ختم ہوجائے گا ۔اس سے اردوان کے اگلے انتخابات میں کامیابی کے امکانات اچانک روشن ہوگئے ہیں ۔ شام میں حلیف حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ترک حکومت کے لیے کردوں سے نمٹنا آسان ہوجائے گا ۔
ایران کے حریف ممالک اردن ، سعودی عرب و دیگر ممالک میں حکومت کی تبدیلی کی راہ ہموار ہوگئی ہے ۔ اس سے ایران کو کیا معاشی فوائد حاصل ہوں گے ۔ اس کا بھی جلد ہی پتا چل جائے گا۔
اب کھیل کے نتائج سامنے آنا شروع ہوئے ہیں ۔آئندہ چند ماہ میں منظرنامہ اور بھی زیادہ واضح ہو چکا ہوگا ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
hellomasood@gmail.com