خیبر پختونخوا کے علاقےکرم میں فرقہ وارانہ فسادات کے بعد انتظامیہ نے کئی روز سے علاقے میں آمدورفت کی سڑکیں اور راستے بند کر دیے ہیں۔ جس کے باعث علاقے میں ادویات اور دیگر ضرریات زندگی کی قلت شدت اختیار کرنے لگی ہے۔
برطانوی اخبار دی گارجین نے ضلع کرم کے دارالحکومت پارا چنار میں قائم مرکزی اسپتال کے میڈیکل سپریٹینڈنٹ سید میر حسن کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ ادویات کی کمی کے باعث 30 بچے جاں بحق ہو گئے ہیں۔
اکتوبر سے تاحال علاقے میں فرقہ وارانہ مسلح تصادم کے نتیجے میں 130 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جبکہ انتظامیہ علاقے میں جاری کشیدگی کنٹرول کرنے میں مکمل بے بس نظر آتی ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان کے پاس خوراک، دودھ، ادویات اور ایندھن کی قلت ہے اور ان کو خدشہ ہے کہ جلد ہی علاقے میں تمام بنیادی ضروری اشیا مکمل ختم ہو جائیں گی۔ مقامی اور مرکزی حکومت بحران پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔
ایدھی فاونڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ علاقے کے لوگوں کو مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اسپتالوں میں آکسیجن اور ادویات ختم ہوچکی ہیں اور ایکسرے اور سٹی اسکین مشینیں خراب ہیں۔
دوسری جانب مقامی حکومت نے علاقے کے راستے کھولنا دونوں گروپوں کی جانب سے اپنے بھاری ہتھیار انتظامیہ کے حوالے کرنے سے مشروط کردیا ہے۔