کراچی پیپرز (نمائندہ خصوصی ) سات ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود فیڈریل انویسٹی گیشن ایجنسی ) ایف آئی اے ابھی تک بچوں کی امریکا اسمگلنگ میں ملوث صارم برنی کیس کے دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بااثر شخصیات کی ایماء و دباؤ پر ایف آئی اے نہ صرف دیگر ملزمان کو گرفتار کرنے سے دانستہ گریزاں ہے بلکہ کیس کو طول دینے کی پالیسی پر بھی عمل کیا جارہا ہے تاکہ شواہد کی عدم دستیابی کی بناء پر صارم برنی ٹرسٹ کے سربراہ ملزم صارم برنی کیخلاف کیس ختم کرایا جاسکے۔
واضح رہے کہ امریکی حکام کی تحریری شکایت پر ایف آئی اے نے گزشتہ سال جون میں امریکا سے واپسی پر صارم برنی کو کراچی ائرپورٹ پر گرفتار کیا تھا۔ مفرور ملزمان میں صارم برنی ٹرسٹ کے قانونی مشیر بسالت خان ، صارم برنی ٹرسٹ شیلٹر ہوم کی انچارج حمیرا ناز اور مدیحہ اسلام شامل ہیں۔
ملزمہ مدیحہ سرجانی ٹاون میں کلینک چلاتی ہے جہاں غریب افراد سے نومولود بچے اور بچیوں کی خریدوفروخت کرتی ہے۔ملزمہ مدیحہ صارم برنی ٹرسٹ کو بچی فراہم کرچکی ہے۔
تحقیقات کے مطابق جن بچیوں کو امریکا اسمگل کیا گیا تھا ان کے نام دستاویزات میں زہرا اور سارہ بتائے گئے جن کی عمریں چار اور چھ سال ہیں۔ ان بچیوں کے اصل نام نام جنت اور فاطمہ ہیں اور ان کے والد کا نام واصف شبیر ہے جو حیات ہے۔
تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ بچیوں کو یتیم ظاہر کیا گیا تھا جبکہ ان کا والد واصف شبیر زندہ ہے۔جس نے بچیوں کی دیکھ بھال کے لیے بچیاں صارم برنی ٹرسٹ کے حوالے کی تھیں۔ صارف برنی نے والد کو بتائے بغیر بچیوں کو امریکا میں مقیم جوڑے کو چھ ہزار ڈالر کے عوض فروخت کردیا تھا۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ واصف شبیر نے بیان دیا کہ اس کی اہلیہ نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جس کے بعد اس نے بچیوں کو ٹرسٹ کے حوالے کیا تھا تاکہ بچیوں کی دیکھ بھال کی جاسکے ۔اس حوالے سے واصف شبیر نے ایف آئی اے اور متعلقہ عدالت میں حلف نامہ بھی جمع کرایا ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ صارم برنی ٹرسٹ کے قانونی انچارج بسالت خان نے امریکن ایمبیسی کو ای میل کی کہ ایک بچی منتہا کو ایاز خان کی تحویل میں دیا جارہا ہے اور منتہا کی والدہ کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بچی کا اصل نام حیا تھا جسے منتہا کا نام دیا گیا۔
تحقیقات میں مزید انکشاف ہوا کہ منتہا (حیا ) کو سرجانی ٹاون میں کلینک چلانے والی ملزمہ مدیحہ نے 6 لاکھ روپے کے عوض خریدا تھا۔یہ بچی افشین نامی خاتون سے خریدی گئی تھی جو کہ اصل ماں ہے۔ملزمہ مدیحہ نے 6 لاکھ روپے میں سے ساڑے تین لاکھ روپے ادا کردئیے تھے اور یہ بچی صارم برنی ٹرسٹ کے حوالے کردی گئی تھی۔
صارم برنی فی بچی تین ہزار ڈالر وصول کرتا تھا جبکہ بقیہ رقم میں دیگر لوگ حصہ دار ہوتے تھے جبکہ ملزم بسالت خان عدالتی معاملات دیکھتا تھا اور جعلی دستاویزات جمع کرا کر عدالتی حکم نامہ حاصل کرتا تھا ۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزمہ حمیرا صارم برنی شیلٹر ہوم کی انچارج تھی اور سارے سرٹیفکیٹ پر ملزمہ حمیرا نے ہی دستخط کیے تھے اور ملزمہ مدیحہ لوگوں کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر بچیاں خریدتی تھی پھر صارم برنی ٹرسٹ کو فراہم کرتی تھی۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ مفرور ملزمان کی گرفتاریوں کے لیے چھاپہ مار کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں، تاہم تاحال کوئی بھی مفرور ملزم گرفتار نہیں ہو سکا ہے ۔