کراچی پیپرز خصوصی رپورٹ : کراچی میں قبضہ مافیا نے سمندر کو بھی نہ بخشا، کیماڑی میں ضیاالدین اسپتال کے عقب سے بے نظیر پارک تک سمندر میں اندھا دھند غیر قانونی پلاٹنگ جاری ہے، کئی برسوں سے ڈمپر کے ذریعے سمندر میں ملبہ ڈالا جارہا ہے۔ شارع فیصل پر تعمیر ہونے والا کثیر منزلہ نسلہ ٹاور جو سپریم کورٹ کے حکم پر منہدم کیا گیا تھا اسکا ملبہ بھی اسی مقام پر ڈال کر سمندر پاٹ دیا گیا۔
قبضہ مافیا نے ملبہ ڈال کر کنارے سے دو ڈھائی کلو میٹر سمندر دھکیل دیا ، سیکڑوں گھر بنائے جاچکے ہیں اور مزید کی تعمیر بھی جاری ہے۔ اس زمین پر مختلف مقامات پر 10 سے 12 مساجد بھی بنادی گئی ہیں۔ جبکہ کے پی ٹی ، میری ٹائم ، پولیس اور دیگر اداروں نے چپ سادھ رکھی ہے۔
سمندر کے کنارے سے شروع کی گئی آبادی مینگروز کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اسی آبادی میں پولیس کی مبینہ پشت پناہی سے گٹکے اور دیگر منشیات کی فروخت بھی کھلے عام جاری ہے۔ سمندر میں پلاٹنگ سے کے پی ٹی میں پانی کی گہرائی بھی کم ہو رہی ہے۔ مقامی افراد نے کراچی پیپرز کو بتایا کہ مختلف با اثر افراد ہیں جو ڈمپر ارینج کرکے ملبہ منگواتے ہیں اور سمندر میں بھرائی کے بعد پلاٹ بیچ دیتے ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق تیس بائی تیس کا پلاٹ 18سے 22 لاکھ روپے میں مل جاتا ہے۔ پلاٹ کے کاغذات نہیں ہوتے بس وہ آپ کو پلاٹ دکھاتے ہیں اور پیسے لیتے ہیں پھر آپ بغیر روک ٹوک کے اس جگہ تعمیر شروع کر سکتے ہیں۔چار پانچ جگہ پر تو کنٹینر یارڈ بھی بنا دیے گئے ہیں۔
پلاٹ کی خرید وفروخت کا سارا کام نقد رقم کے عوض جان پہچان پر ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ قریب رہنے والوں کو گواہ بنا لیا جاتا ہے۔ ایک مقامی شخص کا کہنا تھا کہ اب کوئی ریاستی رٹ نہیں ،،بس لوگ رہتے ہیں زیادہ پیسہ ہو تو پلازہ بھی بنا لیتے ہیں چار منزلہ بناؤ یا آٹھ کوئی نہیں پوچھتا۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ پلات کے کاغذات کا زیادہ مطالبہ کرنےوالےکو پلاٹ بیچنے والے سٹی کورٹ سے پچاس یا سو روپے والا اسٹمپ پیپر لکھ دیتے ہیں جس پر پہلے سے ہی مہریں لگی ہوتی ہیں یہ بھی ریڈی میڈ ہوتا ہے۔ عام طور پر سادہ کاغذ پر لکھ دیتے ہیں کہ فلاں دن فلاں سے خریدا فلاں گواہ تھے۔
کراچی پیپرز کے پوچھنے پر مقامی افراد نے بتایا کہ بیچنے والے بھی مقامی افراد ہوتے ہیں جن میں با اثر بے اثر سب شامل ہیں البتہ انکی پشت پر مبینہ طور پر پولیس سیاسی جماعت اور کے پی ٹی والے ہوتے ہیں۔ کچھ عرصے قبل پلاٹوں کی غیر قانونی خرید وفروخت میں باچا خان نامی شخص بہت متحرک تھا جس کو کچھ ماہ پہلے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔
باچا خان کے متعلق مقامی افراد میں مشہور تھا کہ اس کو مبینہ طور پر پیپلز پارٹی کے رہنما قادر پٹیل کی پشت پناہی حاصل تھی۔ باچا خان کے کارندوں میں عبداللہ اور راجا وغیرہ شامل تھے۔

یاد رہے کہ سمندر پر یہ قبضہ مائی کلاچی روڈ کی جانب سے بھی کیا جارہا ہے جہاں کے پی ٹی آفیسر کالونی بنانے کے لیے پلاٹنگ کررہی تھی، جس پر سپریم کورٹ فیصلہ کے باعث کام روک دیا گیا لیکن یہاں سے ملبہ نہیں ہٹایا گیا اور اس مقام پر اب بھی مستقل پلاٹنگ کی جا رہی ہے۔
اس حوالے سے جب کراچی پیپرز کے نمائندے نے کے پی ٹی ترجمان سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا تو انھوں نے دوٹوک انداز میں اس پر کسی بھی قسم کا موقف دینے سے انکار کر دیا۔
واضح رہے کہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف کو کراچی پورٹ ٹرسٹ کی زمینوں پر قبضے کے حوالے سے رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس میں انکشاف کیا گیا کہ کے پی ٹی اراضی کے بڑے حصے پر حکمران سیاسی جماعتوں کے بعض سیاستدانوں کی مبینہ حمایت سے تجاوزات قائم ہیں۔ وزیر اعظم کو پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ کے پی ٹی کی کل 8,644 ایکڑ اراضی میں سے تقریباً 1,098 ایکڑ پر غیر قانونی قبضہ ہے۔
رپورٹ پر ردعمل میں پیپلز پارٹی کے ایم این اے عبدالقادر پٹیل کا کہنا تھا کہ حکومت سندھ نے آبادیوں کو قانون کے مطابق لیز دی ہے،کراچی پورٹ ٹرسٹ بتائے جب قبضے ہو رہے تھے تو ان کا انسداد تجاوزات کا محکمہ کہاں تھا؟ انھوں نے وزارت پورٹ اینڈ شپنگ کی رپورٹ کو دیوانے کا خواب قرار دیا۔
سمندر میں پلاٹنگ سے نہ صرف کراچی بندرگاہ پر پانی کی گہرائی کم ہورہی ہے بلکہ سمندر میں مینگروز کی بقا اور آبی حیات بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ کچھ سال قبل سائبرین پرندہ اس سمندر میں بڑی تعداد میں آیا کرتے تھے۔ سائبرین پرندوں کے جھنڈ نیٹیو جیٹی سے با آسانی دیکھے جاسکتے تھے، تاہم اب آبادی اور مینگروز کے درمیان سمندر کم ہونے سے ان پرندوں نے یہاں آنا چھوڑ دیا ہے۔

صرف سائبرین پرندے ہی نہیں کچھ سال قبل ہی یہاں مچھیروں کو مچھلی اور کیکڑوں کا شکار کرتے بھی دیکھا جاتا تھا جو اب یہاں سے جاچکے۔ بے دریغ پلاٹنگ اور سیوریج کے پانی نے سمندر کو انتہائی الودہ کردیا ہے جس سے آبی پرندوں کے ساتھ کیکڑوں کی مختلف اقسام اور مچھلیاں بھی ناپید ہوچکی ہیں۔